Zimaydar Kaun?

مستقل نام: آگاہی


کالم کا نام : ذمہ دار کون؟
کالم نگار:ستارہ لیاقت

چند عرصہ قبل ایک خبر سننے کو ملی لاہور کے ایک مشہور ریستوران میں چھاپا مارا گیا جہاں یہ پتہ چلا کہ ریستوران میں مضر صحت اشیاء کے ساتھ ساتھ کھانے کی تراکیب میں ریڈ وائن کا استعمال بھی کیا جا رہا تھا کھانے میں
کی ملاوٹ تو ایک عرصے سے چلی آرہی ہے لیکن اب کھانے کی اشیاء میں حرام چیزوں کی ملاوٹ بہت تشویش ناک ہے ہم جنوبی ایشیا کے جس ملک پاکستان میں رہتے ہیں یہاں 98 فیصد سے زائد مسلمان آبادی ہے اور مسلمان ہو کے بھی یہاں کھانے پینے کا یہ عالم ہے کہ کبھی گوشت کے نام پر گدھے کا گوشت کھلایا جاتا ہے تو کبی کتے کا مچھلی کے نام پر سمندری کیڑے مکوڑے بیچے جاتے ہیں تو کبھی آئل کے نام پر حرام چربی فروخت کی جاتی ہے ارباب اختیار کو تو اسکی کوئی فکر نہیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے ظاہر ہے جب انہیں معلوم ہی نہیں تو اسکی روک تھام کیلئے کیا کر رہے ہوں گے۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں خود بھی حرام اور حلال اشیاء کی تمیز نہیں رہی ملاوٹ کرنے والے یہ کہہ کر چھٹ جاتے ہیں کہ یہ ہمارے حریفوں کی سازش ہے اور کھانے والے یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں ہم نے کونسا جان بوجھ کر کھایا ہمیں تو دھوکے سے کھلایا گیا ہے دھوکے سے کھانے کا ہمیں کوئی گناہ نہیں ہوگا حالانکہ اسلام تو ہمیں یہ تاکید کرتا ہے کہ جو بھی کھائو اسے کھانے سے پہلے تحقیق کر لو اور دوسری بات تو یہ کہ زہر چاہے انجانے میں کھایا جائے یا جان بوجھ کر نقصان تو دونوں صورتوں میں ہوتا ہے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان ریاست میں ایسے کام اتنے دھڑلے سے کیئے جا رہے ہیں اور انکو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے حکومت بھی ایسی خبروں پر کوئی ایکشن نہیں لیتی۔۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل کراچی میں پیش آنے والے واقعے میں بھی ہمیں یہی سننے اور دیکھنے کو ملا کہ دو بچیوں کی مضر صحت کھانا کھانے سے ہلاکت ہوگئ
اسی طرح کے بہت سے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ارباب اختیار واقعات کے نوٹس تو لے لیتے ہیں مگر نوٹس لینے کے بعد کیا ہوتا ہے اسکی کوئی خبر نہیں اسی طرح لاہور میں مردہ جانور کے گوشت کی فروخت اور حرام جانور کے گوشت کے فروخت کی خبروں سے تو شائد ہم میں سے کوئی لاعلم نہیں ہوگا ، اور دودھ کے نام پر تو ایسا دودھ بیچا جاتا ہے جس میں مردوں کو محفوظ رکھنے والا کیمیکل کثیر تعداد میں ملایا جاتا ہے ایسا دودھ پینے سے ہماری نسل جسمانی بیماریوں کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔ایسا دودھ بیچنے کی وجہ یہ بتائی گئ ہے کہ اکثر دودھ کو گائوں سے شہر بیچنے کی نیت سے لاتے وقت دودھ خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس سے نمٹنے کیلئے یہ مضر صحت کیمیکل ملایا جاتا ہے تاکہ دودھ کافی دیر تک اپنی اصل حالت میں رہ سکے۔
اسی طرح کی بہت سی مضر صحت اشیاء کی فروخت پاکستان میں عام ہے ۔۔ ایسے دھندے تو جانے کتنے عرصے سے چلے آرہے ہیں ۔ اسکے زمہ داران کے پسینے تو تب چھوٹے جب پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائرکٹر آف آپریشنز عائشہ ممتاز نے بذات خود پنجاب کے مختلف ہوٹلوں دکانوں بیکریوں اور فیکٹریوں وغیرہ پر چھاپے مار کر بہت سے زمہ داران کے خلاف کاروائی کی۔ کچھ عرصہ تک تو عائشہ ممتاز کی روزانہ کی بنیاد پر کوئی نا کوئی خبر ملتی تھی فلاں جگہ اتنے من مضر صحت گوشت پکڑا گیا فلاں جگہ اتنے لیٹر دودھ نہر میں بہا کر ضائع کیا گیا مردہ مرغیوں کا گوشت پکڑا گیا ہوٹلوں پر چھاپے مار کر کافی ہوٹل بھی بند کرائے گئے اسی طرح بیکری میں بنی اشیاء کی بھی تحقیق کر کے مضر صحت اشیاء بیچنے والی بیکریوں کو بھی سیل کیا گیا عائشہ ممتاز نے اپنی زمہ داری بخوبی انجام دی مگر انکو بھی یہ کہہ کر ہٹا دیا گیا کہ یہ اپنے ڈرائور کے ہمراہ کرپشن میں ملوث ہیں مگر اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا ہمارے ملک میں تو ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آرہا ہے کہ جو انسان زمہ داری سے اپنا کام سرانجام دیتا ہے اسکو ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم عائشہ ممتاز کے ہوتے ہوئے جتنے چھاپے مار کر مضر صحت اشیاء بیچنے والے موت کے سوداگروں کے گرد گھیرا تنگ ہوا اتنا شائد ہی کسی اور کے ہوتے ہوئے کیا گیا ہو ۔
اسکے بعد بھی ایسی بہت سی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملیں مگر اب ان معاملات کی طرف نہ کسی زمہ دارکی توجہ ہے نہ حکومت کی۔ آئے روز ننھی جانوں کا ضیاع کس کی زمہ داری ہے ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے مزہبی رہنما بھی اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں کیا عوام کو اسلامی طرز زندگی کے متعلق رہنمائی دینا انکا فرض نہیں؟ فرقہ وارانہ مسائل پر بھرپور توجہ رکھنے والے ملاوٹ حرام و حلال طریقوں سے حصول رزق کے گناہ و ثواب کے بارے میں عوام کو آگاہ کیوں نہیں کرتے اور عوام خود بھی کب تک اس امید پر زہر نوشی کرتے رہیں گے کہ شائد کبھی حکومت کا ضمیر جاگے اور وہ داد رسی کرے آخر کب تک ہم یونہی مظلومیت کا پرچار کرتے رہیں گے ہم کچھ کرتے کیوں نہیں؟؟؟

Comments